Deprecated: Function create_function() is deprecated in /home/q1s6si6doe0o/public_html/futureislam/wp-content/plugins/revslider/includes/framework/functions-wordpress.class.php on line 258

Deprecated: Function create_function() is deprecated in /home/q1s6si6doe0o/public_html/futureislam/wp-content/plugins/sub-categories-widget/sub-categories-widget.php on line 193

Deprecated: Function create_function() is deprecated in /home/q1s6si6doe0o/public_html/futureislam/wp-content/plugins/wp-all-import-pro/classes/config.php on line 47

Deprecated: Function create_function() is deprecated in /home/q1s6si6doe0o/public_html/futureislam/wp-includes/pomo/translations.php on line 208
ایک نئی ابتداء کا اہتمام - Future Islam Urdu
insight

ایک نئی ابتداء کا اہتمام

راشد شاز

فی زمانہ امت مسلمہ ایک بڑے بحران سے دوچار ہے۔ باشعور اور فکر مند مسلمان خود اپنے آپ سے سوالی ہے آیا وہ اس نئی صورتِ حال کے پیش نظر اپنے فکر و نظر کی دنیا کو ازسرنو ترتیب دے، اپنے روایتی طریقۂ کار کا سخت محاسبہ کرے‘ یا پھر اپنے آپ کو تاریخ کے رحم و کرم پر یونہی چھوڑ دے۔ تاریخ کے آگے خود سپردگی فی نفسہٖ کوئی سوچا سمجھا لائحہ عمل نہیں ہوسکتا۔ رہی یہ بات کہ صورتِ حال کے ازالے کے لیے کیا کیا جائے تو اس بارے میں مسلم ذہنوں میں بالعموم ایک محیط اور پُراسرار سناٹے کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ گویا ہم ایک ایسی وادی میں آنکلے ہوں جہاں آگے چلنے کی کوئی روایت نہ ہو۔ قدموں کی چاپ سے ہمارے کان ناآشنا ہوں۔
جو لوگ ہماری تاریخ سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہمارا ملّی کارواں خطرات کے گرداب میں پھنس گیا ہو، اس سے پہلے بھی کم از کم چار ایسے مواقع آئے ہیں جب من حیث القوم ہمیں اپنی اجتماعی زندگی کا چراغ گل ہوتا ہوا محسوس ہوا ہے۔ خلیفۂ ثالث حضرت عثمانؓ کی شہادت، خلافت عباسی کا زوال، سقوطِ غرناطہ اور انہدامِ خلافتِ عثمانیہ ہماری تاریخ کے وہ بحرانی لمحات ہیں جن سے پہلے بھی ہم نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنی تاریخ کے اس پانچویں بحران میں، جس سے آج ہم دوچار ہیں، ہمارے دل و دماغ پر کسی جائے پناہ کے نہ ملنے کا احساس ماضی کے مقابلے میں کہیں گہرا ہے۔ سکڑتی دنیا میں جہاں مواصلاتی سیارچوں کی آنکھیں شب و روز ہمارے تعاقب میں ہیں، جہاں امریکی استعمار نے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مختلف اڈوں کے ذریعے اپنے مخالفین کی ہر آواز کو دبانے کا عزم کر رکھا ہے، کم از کم نفسیاتی طور پر تو یہ احساس عام ہوتا جارہا ہے کہ صدر بش کے الفاظ میں‘ ان کے مخالفین کے لیے ’’اس سرزمین پر اب کہیں کوئی جائے پناہ باقی نہیں رہ گئی ہے‘‘۔ عراق پر امریکی استعمار کے راست قبضے، افغانستان کا عملی طور پر امریکی نوآبادی میں تبدیل ہوجانا، لیبیا اور ایران کی نیوکلیائی مسئلے پر خود سپردگی، پاکستان اور دوسری مسلم ریاستوں کی شب و روز تذلیل و تضحیک، اس منظر نامے میں ہمارے علما اور دانشوروں کے محض احتجاجی بیانات، مذمت کی قراردادیں یا برسرپیکار مسلح نوجوانوں کا ایک ہارتی ہوئی جنگ کو مزید اسی روایتی انداز سے جاری رکھنا اس بات پر دال ہے کہ ہم بحران کے ان سخت لمحات میں بھی کسی واضح رہنمائی اور سوچے سمجھے منصوبے سے یکسر خالی ہیں۔ مشرق ہو یا مغرب، امن پسند دانشور ہوں یا مسلح جنگجو، قدامت پرست علماء ہوں یا روشن خیال دانشور‘ واقعہ یہ ہے کہ ہم اس شعور سے خالی ہیں کہ ہمیں جانا کہاں ہے؟
حقیقت گو کہ انتہائی تلخ ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ آج امت مسلمہ اپنے فکری زوال اور عملی انتشار کی وجہ سے خیر امت کے منصبِ جلیل سے معزول ہوچکی ہے۔ آج جو لوگ دنیا کی عملی قیادت کررہے ہیں یا جو یہاں سیاہ و سفید کے فیصلے کا اختیار رکھتے ہیں بدقسمتی سے وہ ہم نہیں۔ ہماری موجودہ بدحالی اور فکری زوال اپنے پیچھے صدیوں کی تاریخ رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ فتنۂ قتل عثمانؓ سے وحی کا جو اجتماعی ماحول متزلزل ہوا اس نے آنے والے دنوں میں ہمارے لیے فکری پراگندگی کا مسلسل مواد مہیا کیا ہے۔ تب سے اب تک ہم مسلمان ماخذِ وحی سے مسلسل دور ہوتے گئے۔ اسلام کا وہ کلمۂ تقلیب انگیز اور ہماری وہ فکرِبے نیام جو کبھی حریتِ فکر، انسانی آزادی اور مساواتِ آدمیت سے عبارت تھی اور جس سے بجھے دلوں کے چراغ جل اٹھتے تھے اس نے رفتہ رفتہ ایک قومی ایجنڈے کی حیثیت اختیار کرلی۔ پھر ہماری فکر بے نیام میں وہ قوت نہ رہی کہ غیراقوام کے دلوں کو مسخر کرتی یا انھیں اپنا نجات دہندہ ہونے کا احساس دلاتی۔
تاریخ کے اس نازک لمحے میں جب ہماری فکرِ بے نیام کُند ہوچکی ہے‘ ہم خود کو اس پوزیشن میں محسوس نہیں کرسکتے کہ اقوامِ عالم کی نجات تو کجا خود اپنی حفاظت کا بھی سامان کرسکیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ صدیوں پر مشتمل ہماری ملّی تاریخ میں ہر دور میں فکر و عمل کی درستگی کے لیے آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو جب ہمارے اندر اصلاحِ احوال کے لیے دین کی طرف واپسی کا نعرہ نہ لگایا گیا ہو یا قرآن کے نسخۂ شفا کے استعمال کا مشورہ نہ دیا گیا ہو۔ البتہ عملی طور پر ہوا یہی ہے کہ دین کی طرف ہماری واپسی بڑی حد تک فقہی رسوم کی بازیافت سے عبارت رہی۔ وحئ ربانی پر انسانی تعبیرات نے التباسات کی جو دبیز دھند طاری کر رکھی تھی اس کے اسرار و عواقب کا صحیح اندازہ لگانے میں ہم سے سخت غلطی ہوتی رہی۔ آخری وحی کے حاملین کی حیثیت سے ہم اس بات کے سزاوار ہیں کہ دنیائے انسانیت کو راہ یاب کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب خود ہمارا فکری اور عملی وجود راست وحئ ربانی سے غذا حاصل کرتا ہو۔ گویا وحی کی تجلیوں کی ازسرنوبازیافت کے بغیر ہماری اجتماعی تشکیل جدید ممکن نہیں اور ہماری اس تشکیل جدید کے بغیر اقوام عالم کی موجودہ بے سمتی کا ازالہ بھی ممکن نہیں۔
بیسویں صدی کے نصف آخر اوربالخصوص پندرہویں صدی ہجری کی ابتدا میں مسلم انجمنوں کی چلت پھرت اور علماء و مشائخ کے پرزور خطبوں کے زیراثر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دنیا پر ایک نئی صبح طلوع ہونے کو ہے۔ ۱۹۷۹ء کا ایرانی انقلاب، افغانستان میں روس کی شکست، روسی استعمار کے بطن سے وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کی غیرمتوقع بازیابی، یہ وہ عوامل تھے جس نے اہل فکر مسلمانوں کو بھی خوش فہمیوں میں مبتلا کردیا۔ ہم صورتِ حال کا صحیح اندازہ لگانے اور اپنے فکر بے نیام کے کند ہوجانے کے احساس سے غافل رہے۔ ہمارے حوصلہ مند سیاسی قائدین بھی اگر زیادہ سے زیادہ کچھ سوچ سکے تو وہ اسی قدر کہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل معاشی، جغرافیائی یا سیاسی بلاک کس طرح تشکیل دیا جائے۔ اپنے تمام تر حسن نیت کے باوجود مسلم معاشرے میں دین کی واپسی کے حوالے سے کرنے والوں نے یہی کیا کہ وہ ایک خاص قسم کے فقہی نظام کو معاشرے پر جبراً نافذ کردیں۔ نہ تو متحدہ مسلم بلاک کے نظریے میں یہ قوت تھی کہ وہ امت کو بنیان مرصوص میں تبدیل کرسکے اور نہ ہی فقہی یا مسلکی تعبیر ہماری شیرازہ بندی کا کام انجام دے سکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جلد ہی صحوہ اسلامیہ کے فلک شگاف نعروں کی ہوا نکلتی گئی۔ دین کی فقہی تعبیر جو خود اہل ایمان کے دوسرے گروہوں کو ساقط الاعتبار قرار دیتی تھی‘ بھلا دوسرے ادیان کے لیے نصح خیرخواہی کے جذبے سے سرشار کیوں ہوتی؟ نتیجتاً ہم ایک طرح کے تہذیبی تصادم کی کیفیت سے دوچار ہوگئے۔ نئی دنیا نے مسلمانوں کو مغرب کے اجنبی بلاد و امصار میں قیام کا جو غیرمعمولی موقع فراہم کیا تھا، ہم حاملین وحی کی حیثیت سے اس کا خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھاسکے۔ مغرب کے تہذیبی سمندر میں اسلامی مراکز کے نام پر ہم اپنے ثقافتی جزیرے تعمیر کرتے رہے۔ دین کی فقہی تعبیر دیگر تہذیبی حلقوں میں پائی جانے والی سعید روحوں پر بھی اپنے دروازے بند کرتی رہی۔ (یا اہل الکتاب تعالوا الٰی کلمۃ سواء) (آل عمران:۶۴) کی قرآنی پکار اسلامی بیداری کے ہنگاموں میں تحلیل ہوگئی۔ عملاً ہوا یہ کہ احیائے امت کے اس فقہی،مسلکی اور گروہی منہج نے گروہی تصادم کی راہ ہموار کی۔ صحوہ اسلامیہ کی ہماری سرتوڑ جدوجہد نے ہمیں ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے جب ہم من حیث الامت ایک غیرپیغمبرانہ گروہی تصادم کو کفر و اسلام کی جنگ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ہم فجر جدید کے بجائے خود کو ایک صبح کاذب کے درمیان پاتے ہیں۔
مشرق اور مغرب کے مابین موجودہ تصادم میں جہاں ایک منتشر اور تباہ حال امت کو‘ بلکہ صحیح معنوں میں پوری انسانیت کو‘ امریکی استعمار کے جارح عزائم کا سامنا ہے اور جہاں اسلام کو انارکی اور بے سمت دہشت گردی کا ہم معنی باور کرایا جارہا ہے، ہمیں من حیث الامت اس خطرناک مہم کے دوررس اسرار و عواقب کا صحیح اندازہ بھی نہیں۔ ہمارے اسلامی ادارے، دینی علوم کی درس گاہیں، غور و فکر کے مؤقر حلقے چوں کہ اسلام کی مخصوص فقہی یا فکری تعبیر کی رہین منت ہیں اس لیے ان کے لیے اپنے فقہی دائرۂ فکر سے باہر آکر خالص وحی کی روشنی میں موجودہ صورتِ حال کا محاکمہ کرنا مشکل ہورہا ہے۔ عالم اسلام کے مختلف خطوں میں مختلف فقہی اندازِ فکر نے جس طرح دینی فکر پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی، اس کے نتیجے میں آج خود اہلِ اسلام باہم برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں بیرونی خطرات کا مقابلہ کچھ آسان نہیں۔ ماضی میں اگر شیعہ سنی کے باہمی جھگڑے اور حنفی، شافعی کے مابین مسلسل ہونے والے خونی تصادم عباسی بغداد کے سقوط پر منتج ہوئے تھے تو آج بھی بیرونی حملہ آوروں کو ہمارا اندرونی تضاد اور انتشار مسلسل کمک پہنچا رہا ہے۔ ہمارے فقہا جن کی ذہنی تربیت قرآن مجید کی آفاقیت کے بجائے فقہا کے باہمی مناقشوں کی رہینِ منت ہے، وہ اس بات کا تصور کرنے سے عاجز ہیں کہ مسلکی اور فقہی تعبیر سے پرے خالص وحی کی بنیاد پر مسلم شناخت کی تشکیل ممکن ہے۔ مسلم حنیف کا براہیمی ماڈل عرصہ ہوا ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوچکا ہے۔
ہمارے زوال کی تلافی صرف ہمارا اندرونی مسئلہ نہیں۔ آخری وحی کے حاملین کی حیثیت سے پوری انسانیت کا مستقبل ہم سے وابستہ ہے، اس لیے امت مسلمہ کے موجودہ انتشار اور اس کے فکری زوال کو نظر انداز کرنا دنیائے انسانیت کے لیے خطرناک مضمرات کا حامل ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زوال پر بحث و مباحثہ کا حوصلہ پیدا کریں۔ اپنی طویل تہذیبی تاریخ اور فکری انحرافات کا وحی کی روشنی میں سخت محاسبہ کریں۔ جو امت صدیوں سے فقہی طریقۂ فکر کی عادی ہے اور جس کے دل و دماغ کو علمائے متقدمین کی شخصیت نے مبہوت کر رکھا ہے اس کے لیے یقیناًیہ آسان نہیں کہ وہ صدیوں پر مشتمل اپنے تہذیبی اور علمی سرمایے پر تنقیدی نظر ڈال سکے۔ جہاں قال فلان اور رُوِی فلان پر معاملات فیصل کرنے کا رواج ہو،وہاں ہر مسئلہ پر وحی ربانی کی روشنی میں اپنے دل و دماغ کو متحرک کرنے کی دعوت خواہ کتنی ہی معقول ہواجنبی ضرور لگے گی۔ ہوسکتا ہے بعض لوگوں کو اس پر تجدد پسندی کا گمان ہو،لیکن جو لوگ قرآن مجید میں رسول اللہؐ کے مقصد بعثت سے متعلق اس ارشاد سے واقف ہیں (ویضع عنہم اصرہم والأغلال التی کانت علیہم) (الأعراف:۱۵۷) ان کے لیے اس نکتے کا ادراک مشکل نہیں کہ جس طرح قرآن مجید‘ خدا اور بندے کے مابین کسی ربائیت یا پاپائیت کو قابل استراد سمجھتا ہے، اسی طرح وہ مولویت کے ادارے کا بھی انکاری ہے۔ نہ تو تشریح و تعبیر پر کسی کی اجارہ داری ہے اور نہ ہی کسی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ کسی کی صحیح العقیدگی پر شبہ وارد کرے۔ اہلِ ایمان کو تو چھوڑئیے، اللہ تعالیٰ نے تو حلقۂ اسلام سے باہر افراد کا فیصلہ بھی اپنے ہاتھوں میں محفوظ رکھا ہے: (ان اللہ یفصل بینہم یوم القیامۃ)۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا، دائرۂ وحی سے ہمارے باہر آجانے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ہم خیر امت کے منصب جلیل سے معزول ہوگئے، بلکہ پوری انسانی تاریخ جس کی آخری لمحے تک ہمیں قیادت کرنی تھی، سخت بحران سے دوچار ہوگئی۔ تاریخ کے اس سب سے بڑے انحراف کی درستگی کے لیے لازم ہے کہ ہم ان اسباب پر ایمان دارانہ غور و فکر کریں، جس نے ہمیں انسانیت کی قیادت سے ہٹاکر تاریخ کے dustbin میں ڈال دیا ہے۔
یاد رکھئے! جولوگ خود کو آخری وحی کا حامل سمجھتے ہوں اور جو جذباتی طور پر اس احساس سے سرشار ہوں کہ انھیں تاریخ کے آخری لمحے تک اقوامِ عالم کی قیادت پر مامور کیا گیا ہے، وہ اگر رضاکارانہ طور پر اسی طرح تاریخ کے dustbin میں مزید پڑے رہے تو دنیا فتنہ و فساد سے بھر جائے گی۔ انسانی آزادی کا جو بگل مختلف انبیاء نے اپنے اپنے زمانے میں بجایا تھا اور جس کی بدولت آج ہمیں دنیا کے مختلف گوشوں میں انسانی آزادی اور اکرامِ آدمیت کی باتین سننے کو ملتی ہیں، یہ تحریک رفتہ رفتہ دم توڑ دے گی۔ انسانی گردنوں کو اصر و اغلال سے نجات دلانے کے لیے محمدؐ رسول اللہ کی سعی بلیغ پر ربائیت، پاپائیت اور مولویت پھر سے اپنی کمندیں ڈال دے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم موجودہ War on Terror کے اسرار و عواقب کا مقابلہ کرنے کے لیے، جہاں ایک بار پھر انسانی آزادی سخت خطرے میں گھر گئی ہے، فی الفور اپنے دل و دماغ کو حرکت دیں۔ تاریخ کے انحراف کو درست کیے بغیر اور امت مسلمہ کی دوبارہ تنصیب امامت کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ ہم پر وہ خواب آسا دنیا طلوع ہو، جہاں انسانوں کی گردنیں انسانوں کی دست درازی سے یکسر محفوظ ہوں۔ موجودہ شہری تہذیب میں جہاں فرد آزاد رہ کر بھی نظام کے ہاتھوں بندھوا مزدور بن گیا ہے، جہاں اس کے خون کا قطرہ قطرہ ٹیکس کی جبری مشین کو متحرک رکھنے میں صرف ہورہا ہے، اس نامحسوس غلامی سے نجات کا کام بھی آخری وحی کے حاملین کو انجام دینا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close