
کہ نابینا اور چشم بینا رکھنے والا برابر نہیں
اور نہ ہی تاریکی اور روشنی
اور نہ ہی سایہ اور دھوپ
( فاطر : ۱۹ تا ۲۱)
عہد جدید کے عذابوں میں ایک بڑا عذاب نظر کے فریب کا ہے ، میڈیا کی پیدا کردہ اس دنیا میں ہم ایک سرابِ مسلسل سے دوچار ہیں ، منظر نامہ اتنا کریہہ ہے کہ اگر وہ اپنی اصل صورت میں نظر آ جائے تو ہم میں سے بہتوں کے ہوش و حواس خبط ہو جائیں ، انسان جینے کا حوصلہ کھو دے ، دل و دماغ مفلوج ہو جائے لیکن مصیبت یہ ہے کہ نگاہوں کے سحر اور بصیرت کے فقدان نے ہمیں صورت حال کی سنگینی کے ادراک سے روکے رکھا ہے ، یہ کچھ و ہی صورت حال ہے جب اہل زمین کی ہدایت کے لئے خدا اپنے پیغمبروں کو بھیجتا ہے ، اللّھم أرني الأشیاء کما ھي۔
انبیاء کا بنیادی کام قلب و نظر کی تبدیلی ہوتاہے، ان کی دعوت الی اللہ ایک نیا world view وجود میں لاتی ہے ۔ قرآن کی زبان میں ظلمات سے نور کا یہ سفر اندھوں کو چشم بینا عطا کرتا ہے، اشیاء اپنی اصل ماہیئت میں نظر آنے لگتی ہیں ، توہمات کے پردے چاک ہو جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے گویا مردہ اوربے جان میں از سر نو زندگی کی روح پھونک دی گئی ہو ، حضرت مسیحؑ کے حوالے سے قرآن مجید میں زندگی کا نیا صور پھونکنے اور شفاء قلبی عطا کئے جانے کا واقعہ گو کہ خصوصیت سے بیان کیا گیاہے البتہ (شفاء لما فی الصدور) (یونس:۵۷) کا یہ آسمانی نسخہ آج بھی قرآن مجید کی شکل میں اس سر زمین پر موجود ہے ۔ محمد رسول اللہ نے کوئی پندرہ صدیوں پہلے جب خوابیدہ انسانیت کو ایک فکری، عقلی، اور روحانی دھماکے سے آشنا کیا اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انسانی دل و دماغ میں تمام پوشیدہ صلاحیتیں اپنی انتہائی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے لگی ہیں۔قلب و نظر کی دنیا میں اس زبردست ربانی دھماکے کی گونج مدتوں سنی جاتی رہی ، حتی کہ آج بھی جب اس واقعہ پر پوری پندرہ صدیاں بیت چکی ہیں ارتعاش کی ان لہروں کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب گونا گوں لہروں میں اس کا وہ تفوق باقی نہیں رہا۔ صورت حال یہاں تک آ پہنچی کہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں کی ایک قابل ذکر آبادی بھی آج اس خیال کو دل سے لگائے بیٹھی ہے کہ کوئی مہدی منتظر یا مسیح موعود اسے موجودہ صورت حال سے نجات دلانے کے لئے گویا بس اب آنے ہی کو ہے،بالفاظ دیگر دوسری اقوام کی طرح مسلمان بھی ایک نئے ذیلی نبی کے منتظر ہیں یا کم از کم ان کی نگاہیں ایک ایسی روشنی کے نزول کے لئے آسمان تک اٹھ رہی ہیں جو فی زمانہ غیاب محمدی کی کفایت کر سکے۔
مسلمانوں کی مسلسل ہزیمت کے پیش نظر کسی ایسے داعیہ کی نفسیاتی وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے کہ Crusoe-like-approach کا قبولیت اختیار کر لینا ہزیمت خوردہ قوموں کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ نئے مسیحا کے انتظار میں دوسری اقوام بھی پیچھے نہیں ۔ عیسائیت گو کہ آج بھی غالب اقوام کا دین ہے لیکن خود عیسائیت کے اپنے گڑھ میں صدیوں سے اسے مسلسل جس فکری اور نظری پسپائی کا سامنا ہے اور جس طرح اسے اجتماعی زندگی سے فرار پر مجبور ہونا پڑا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقوامِ مغرب کے قدموں کے نیچے اب وہ پتھر نہیں رہا جس کے باعث انکی سماجی زندگی قائم تھی یا جس پر وہ روحانی ضرورت کے لئے ٹیک لگاتے تھے۔کیتھولک عقیدے کے زوال سے لے کر Liberal Capitalism کے سفر میں اہل مغرب خود کو جس دنیا میں پاتے ہیں وہ حریت فکری ، روشن خیالی اور اکرام آدمیت کی دنیا نہیں بلکہ Fascist Liberalism کا کریہہ منظر نامہ ہے جس کے بعد مغربی مفکرین نے سفر تاریخ کے خاتمے کا بگل بجا دیا ہے۔ کمیونزم کے زوال اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جن لوگوں کو یہ توقع تھی کہ امریکی معاشرے میں فکر ونظر کی وسعت اور انسانی آزادی کا جو تجربہ ہوا ہے اس کا دائرہ پوری دنیا تک پھیل جائے گا انہیں Capitalism کے انسانی mask کے پیچھے چھپے مکروہ چہرے سے سخت مایوسی ہوئی ہے ۔ انہیں اس خیال نے بھی لرزہ بر اندام کر دیا ہے کہ جنت نشاں امریکہ کی تابناک خوشحالی کے پیچھے مقہور و مجبور اقوام اور پسماندہ ممالک کا مسلسل نہ تھمنے والا استحصال ہے جس کے بغیر جنت نشاں امریکہ کی آب وتاب باقی نہیں رہ سکتی۔ ذرا غور کیجئے ہندوستان کے مقابلے میں امریکہ میں ایک تہائی آبادی رہتی ہے لیکن وہ پوری دنیا کے ایک تہائی سے بھی زیادہ وسائل اکیلے ہڑپ کر جاتا ہے۔ اگر اہل ہندوستان بھی اسی پر آسائش زندگی پرمصر ہو جائیں تو ایسی صورت حال میں ہندوستان کے علاوہ کرۂ ارض کی تمام آبادی فاقوں کی تاب نہ لا کر دم توڑ دے گی ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جنت ارضی امریکہ اور یورپ کے دوسرے پر تعیش معاشرے کو راست ایسے اقدامات کرنے پڑے ہیں جس سے ان کا لوٹ کھسوٹ ہر خاص و عام پر واضح ہو گیا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کابیدار مغز اور بیدار دل انسان بھی اس صورت حال پر اپنے اندر اضطراب محسوس کرتاہے اور ان کی ایک قابل ذکر آبادی انسانوں کے استحصال اور ان کے اتلاف جان کی قیمت پر اپنی جنتِ ارضی کی چمک دمک کو برقرار رکھنا جائز نہیں سمجھتی ، انہیں صاف محسوس ہوتا ہے کہ جن خوشنما نعروں کے بل بوتے پر وہ اپنے معاشرے پر فخر کرتے تھے انکی بنیادیں ہل گئی ہیں ، وہ نہ صرف یہ کہ اندر سے احساس جرم میں مبتلا ہیں بلکہ اس مصیبت پر پریشان بھی کہ وہ خود کو Fascist Liberalism کے نرغے میں پاتے ہیں ، ایک ایسا فاشزم جس نے تازہ بہ تازہ ایک ایسے نامانوس مذہب کو جنم دیا ہے جسے Evangelical Capitalism کہا جا سکتا ہے اور جس کے نعرے God bless America نے خد ا کو بھی امر یکا کی خدمت پر مامور کر دیا ہے ۔
مغرب میں دنیا کو خود کشی سے دوچار کرنے کی تحریک روز افزوں اضافے پر ہے ، ایسا اس لئے بھی کہ فاشسٹ کیپٹل ازم کو لگام دینے کے لئے اب بظاہر کوئی مؤثر قوت باقی نہیں رہ گئی ہے ، کمیونزم کے زوال کے بعد مشرق میں روحانیت کے جو چھوٹے چھوٹے جزیرے نظر آ رہے تھے اور جہاں فی زمانہ دنیا کے موجودہ صورت حال پر سخت اضطراب پایا جاتا ہے اسے قوت کے بل پر قابو میں لانے کی سر توڑ جد و جہد جاری ہے۔ Globalization کے اسرار و عواقب نے واقعہ یہ ہے کہ پوری دنیا کو Capitalist Fascism کے پنجوں میں جکڑے جانے کی سہولتیں فراہم کر دی ہیں، گویا فاسسٹ اٹلی اور نازی جرمنی میں انسانوں کو اپنی بے بسی کا جو احساس مقامی سطح پر ہوا تھا کچھ یہی صورت حال اس وقت عالمی سطح پر کئی گنا شدت کے ساتھ پوری دنیائے انسانیت پرطاری ہے۔ اس پر طرفہ یہ کہ فاشسٹCapitalism کے علمبردار اس صورت حال کو انسانی تاریخ کی معراج بتاتے ہیں ، ان کے نزدیک تاریخ اپنے منطقی ارتقائی سفر کے بعد لبرل ڈیمو کریسی کی منزل پر آ پہنچی ہے اور یہی تاریخ کی آخری منزل ہے ۔
لیکن یہ تو صرف تصویر کا ایک رخ ہے ، اہل فکر مسلمانوں کو اس مسئلہ پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو اکہ آخری امت کے ہاتھوں سے تاریخ کی لگام پھسلتی چلی گئی اورجنہیں اہل زمین کی نجات دہی کے لئے معمور کیا گیا تھا وہ خود اپنی موت و حیات کی عبرت ناک کشمکش میں گرفتار ہو گئے۔ اس بنیادی سوال کا جواب فراہم کئے بغیر مغرب کے مسلسل بڑھتے سیلاب پر روک لگانا ممکن نہیں۔
ہمیں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ چند صدیوں میں اسلام کا فکری سرمایہ مدافعت کی زبان میں کیوں لکھا گیا ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ جولوگ نظری طور پر دنیا کی قیادت کے لئے اٹھائے گئے تھے اور جنہیں آخری نبی کے متبعین کی حیثیت سے رحمت للعالمینی کا فریضہ انجام دینا تھا وہ خود کو اقوام عالم کے مقابلے میں ایک فریق کی حیثیت سے اس قدر دیکھنے کے عادی ہوئے کہ ان کی نفسیات پر مدافعت پوری طرح غالب آ گئی ، تحریک دعوت یا تحریک رحمت کے حاملین تحریک مزاحمت کے ذہنی سانچے سے جب تک نہیں نکلتے ان کے لئے قرآن کے آفاقی پیغام سے فائدہ اٹھانا اور اسے بروئے کار لانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
ہم اس صورت حال سے بھی صرف نظر نہیں کر سکتے کہ تمسک بالکتاب و السنۃ کے حاملین مغرب کی پیدا کردہ اس دنیا میں خود کو حاشیے پر محسوس کرتے ہیں ، قال اللہ و قال الرسول کی درسگاہیں خواہ اپنے بارے میں کتنے ہی اعلیٰ خیالات رکھتی ہوں واقعہ یہ ہے کہ جدید technological دنیا میں ان کا وجود بے محل ہو کر رہ گیا ہے ۔ اب دنیا کا ان پر انحصار نہیں بلکہ وہ دنیا پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ علوم کے سلسلے میں ہمارے تراشیدہ التباسات نے ہمیں تاریخ کے dustbin میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا ہے ، اب جو لوگ اس صورت حال پر ماتم کناں ہیں اور شدت جذبات میں سب کچھ کر گزرنے کے لئے خود کو آمادہ پاتے ہیں انہیں اس سنگین صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں دکھتا۔ قدیم علماء کی تعبیرات اور فقہاء کی تحریریں چونکہ مدافعت اور مزاحمت کے فکری سانچے میں تیار کی گئی ہیں اس لئے وہ شوقِ شہادت توپیدا کرسکتی ہیں البتہ ان سے کوئی راستہ نہیں مل سکتا ، رہے وہ لوگ جو قدماء پر انحصار کے بجائے ایک نئے راستے کے متلاشی ہیں تو ان کی بڑی اکثریت قرآنی دائرۂ فکر میں واپس جانے کے بجائے اپنے دل و دماغ پر انحصار کو کافی سمجھتی ہے، ایسا اس لئے بھی کہ ان کا دل و دماغ language of resistanceمیں لکھی گئی تحریروں کو قبول نہیں کرتا اور وہ خود language of mercy میں فہم قرآن کے منہج سے واقفیت نہیں رکھتے۔ پھر گذشتہ صدیوں میں مسلم معاشرے میں دین کے نام پر جو سیاسی تحریکیں اٹھیں ہیں اور جس کی وجہ سے دین کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرنے کا رواج ہوا ہے اس نے بھی اہل فکر مسلمانوں کوقرآنی طریقہ فکر اختیار کرنے سے روک رکھاہے۔ سیاسی تحریکوں نے شریعت کے حوالے سے فقہی زندگی کے احیاء کو کافی جانا اور وہ شریعت کو فقہ کا متبادل سمجھنے کی غلطی میں مبتلا رہے۔ نائجیریا یا پاکستان میں شریعت کے نام پر عملاً بعض مسالک کے فقہی نظام کے احیاء کی کوشش کی گئی اور اس عمل میں کسی نے اتنی بھی کوشش نہ کی کہ قرآن سے راست اکتساب کے ذریعے ان فقہی تعبیرات کا کم از کم ایک بار محاکمہ کر لیا جاتا، جو لوگ شریعت کے نام پر حکمرانی کا حق مانگ رہے تھے انہوں نے اس کا موقع ہی کب دیا کہ شریعت ان کے نظام حکمرانی کا محاکمہ کرے وہ تو بس اتنا ہی کافی سمجھتے تھے کہ شریعت ا ن کی حکمرانی میں محض خدمت کا فریضہ انجام دے۔ پاکستان، افغانستان ،نائجیریا جیسی جگہوں پر شریعت کے نام پر ہونے والے تجربوں نے خود اسلامی نظام کے سلسلے میں مایوسی کی ایک فضاء کو جنم دیا ہے ۔
دوسری طرف بیسویں صدی کے نصف اول میں اٹھنے والی پرشور دینی تحریکیں بھی جس اسلامی نظام کے نعرے کے ساتھ سامنے آئی تھیں ایسا محسوس ہوتا ہے اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔ مصر اور پاکستان میں نظام مصطفی کے حوالے سے ابھی تک کسی نظام رحمت کے بجائے مسلکی تشدد اور تنگ نظری کا منظر نامہ ہی آتا ہے ، طالبان کے تجربے اور متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی کے کلیدی رول نے اس خیال کو مزید تقویت دی ہے کہ دینی تحریکیں ابھی تک عہد عباسی کے فقہی تصورات کو ہی دین کا ماحصل سمجھتی ہیں، وہ اس دانشورانہ چیلنج کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کہ قرآنی نظامِ رحمت کی تعبیر مزاحمت اور مدافعت کی زبان سے پرے بھی ہو سکتی ہے۔ قرآن جہاں وسعت قلب و نظر کا داعی ہے وہیں فقہی اور مسلکی طرزِ فکر خود مسلم معاشرے کو ایک خانہ جنگی میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ خود کو مستند مسلمان بتانے اور دوسروں کو دائرہ اسلام کی سرحد پر بھی جگہ نہ دینے کے رویے نے مختلف مسلم معاشرے کو ایک طرح کی خانہ جنگی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاکستان، تیونس، الجزائر، مصر جہاں بھی فقہی طریقہ تعبیر کے ذریعے مزاحمت کی زبان میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مسلم معاشرہ ایک طرح کی خانہ جنگی سے دوچار ہے ۔ کچھ یہی حال عصرحاضر کی نئی سلفی تحریک کا ہے جس نے ماضی میں اوہام پرستی اور آباء پرستی کو لگام دینے میں بڑا رول انجام دیا ہے لیکن اب یہاں بھی ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب کو احبار کے درجے پر فائز کر دینے سے سلف صالح کے حوالے سے (وجدنا آباء نا کذلک یفعلون) کی فضا عام ہے ۔
گویا دنیااگر ایک طرف Capitalist Fascism کے نرغے میں ہے تو دوسری طرف دنیا کے آخری نجات دہندوں پر اپنے مقصد سے بے شعوری اور کارِ نبوت سے بے خبری کی فضا عام ہے۔ انسانی تاریخ آج جہاں اندھی گلی میں پھنسی محسوس ہوتی ہے اور جسے مغربی مفکرین تاریخ کی آخری منزل قرار دیتے ہیں وہ در اصل انسانی تاریخ کا انحراف ہے جس کی بنیادی وجہ متبعین محمد ﷺ کی اپنے منصب امامت سے خود اختیار کردہ معزولی ہے ۔ قرآن مجید کی موجوگی کے باوجود غیر قرآنی ماخذ پر امت کا غیر معمولی انحصار اور کتاب ہدایت کے بجائے کتب فقہ پر مشتمل آراء الرجال کو مشعل حیات قرار دینے کے سبب، واقعہ یہ ہے کہ آج پوری امت دینِ آباء کی اسیر ہو کر رہ گئی ہے ۔ وحی کے گرد تشریحات و تاویلات ، قصص و تاریخ، روایات و کشف کے پہرے اتنے سخت ہیں کہ اب کتاب ہدایت سے راست اکتساب کا چیلنج قبول کرنے کے لئے وہ لوگ بھی آمادہ دکھائی نہیں دیتے جنہوں نے اپنی عمر عزیز کو علوم دین کے حوالے سے وقف کر رکھا ہے اور جن سے بجا طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ امت کو اور اس سے آگے بڑھ کر پوری دنیائے انسانیت کو اس اندھی گلی سے نکالنے میں قائدانہ رول ادا کریں گے۔ مطالعہ قرآنی کے سلسلے میں ہم عرصے سے جس منہج کے اسیر ہیں، جسے سید قطب کی اصطلاح میں المنطق الوجدانی کہا جانا چاہئے، اس نے تفکر و تدبر سے کہیں زیادہ عقلی رویے کی بیخ کنی کی ہے ۔ سلف اور قدماء کی فہم پر غیر معمولی انحصار بلکہ انہیں دلیل اور حکم قرار دے لینے کے نتیجے میں ہم قرآن کے سلسلے میں صدیوں سے ایک ایسی صورت حال میں مبتلا ہیں جسے Kant کی اصطلاح میں self imposed immaturity” سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وحی کے سلسلے میں ہمارا تجربہ ایک ایسی روشنی کا ہے جس نے کوئی چودہ صدیوں پہلے اہل ایمان کے ایک گروہ کو غیر معمولی تقلیب فکر و نظر سے دوچار کر دیا تھا ، فکر و نظر کا یہ انقلاب ہمارے لئے ماضی کی ایک مقدس داستان ہے، ہم فی نفسہ اس تجربے سے ناآشنا ہیں ۔ گویا قرآن کی حیثیت اور اس کا عملی رول ہمارے درمیان روشنی کی ایک داستانِ سابقہ کی ہے، روشنی کی نہیں ۔ اور یہ وہ صورت حال ہے جس نے صدیوں سے پوری امت کو روشنی سے ظلمت کی طرف ایک سفر معکوس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو اگر پچھلی قومیں وحی سے بے اعتنائی برتنے کے نتیجہ میں گمرہی میں مبتلا ہو سکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان قرآن مجید سے مجرمانہ غفلت برتنے کے باوجود روشنی سے اندھیرے کی طرف انخلاء پر مجبور نہ کئے جائیں ۔
ظلمت کا عذاب جب شدید ہو جائے تو ڈر اور خوف اس کا لازمہ بن جاتا ہے۔ وحی کی روشنی جب ساتھ چھوڑ دے تو آنکھیں منزل کی نشاندہی کیسے کر سکتی ہیں: (ذھب اللہ بنورھم و ترکھم في ظلمات لا یبصرون ) (البقرۃ:۱۷) ڈر ، خوف جس سے انسانی وجود لرزجاتا ہو ان قوموں کا خاص شعار ہے جو بوجوہ وحی الٰہی سے تہی دامن رہ گئے ہوں:(أو کصیّب من السماء فیہ ظلمات و رعد و برق) (البقرۃ:۱۹) ظلمت کا یہ عذاب انہیں ایک ایسی صورت حال سے دوچار رکھتا جسے قرآن نے (یکاد البرق یخطف أبصارھم)کہا ہے یعنی ایک ایسی صورت حال جب روشنی بصیرت دینے کے بجائے بصیرت سلب کر لیتی ہو، اس روشنی میں وہ چند لمحے چلتے پھرتے اور پھر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس قرآنی بیان کی روشنی میں دیکھئے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چند الفاظ میں موجودہ امت مسلمہ کی تصویر کشی کر دی گئی ہو۔
صورت حال کی سنگینی اس بات کی طالب ہے کہ امت مسلمہ کے سفر معکوس پر فی الفور روک لگائی جائے۔ ماضی میں اس کارِ عظیم کو انجام دینے کے لئے انبیاء کو مبعوث کیا جاتا تھا، اس میں شبہ نہیں کہ اس کام کی عظمت اور اس چیلنج کی شدت کم از کم ایک نبی کا مطالبہ تو ضرور کرتی ہے۔ جو لوگ آخری نبی کے آجانے کے بعد بھی کسی مسیحا ، مہدی ، امام غائب یا مسیح موعود کے منتظر ہیں ان کے ذہنوں پر اس کارِ عظیم کا یہی چیلنج ہے، البتہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ کی شکل میں انسانی تاریخ کے آخری نبی کا ظہور ہو چکا ہے اور جو آپ ﷺ پر نازل ہونے والے غیر محرف صحیفہ کی اصل عظمت سے آشنا ہیں ان کے لئے اس خیال کو تسلیم کرنے میں ذرہ برابر بھی تکلف نہیں ہونا چاہئے کہ غیاب محمدی میں تاریخ کے انحراف کی درستگی نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ مطلوب بھی ۔ قرآن مجید جب تک اپنی اصل آب و تاب اور غیر محرف شکل میں باقی رہے گا، غیاب محمدی یا غیاب نبی میں ہر لمحہ ایک نئی روشنی کے طلوع کا امکان عین ممکن قرار پائے گا۔ گویا دنیا کو ایک نئے Enlightenment سے آشنا کرنے کا امکان تاریخ کے ہر لمحے میں حاملین قرآن کی دسترس میں ہوگا۔
نئے دور کی ظلمت جس میں آج پوری دنیائے انسانیت مبتلا ہے اور جس سے متبعین محمد کو بھی وافر حصہ ملا ہے اوہام پرستی یا اصنام پرستی نہیں بلکہ ایک طرح کی بے حسی ، بے خبری بلکہ casual اندازِفکر ہے جو در اصل چیزوں کی اصل ماہیئت کے غیاب سے پیدا ہوئی ہے ۔ ماضی کے مقابلے میں یہ نئی صورت حال کہیں سنگین ہے ، دعائے محمدی اللّھم أرني الأشیاء کما ھي کی اتنی شدید حاجت شاید تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہو۔ چیزوں کی اصل ماہیئت کے ادراک کے بغیر نہ تو صحیح محاکمہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی مستقبل کے لئے کوئی راستہ مل سکتا ہے ،اور یہ کام غیاب محمدی میں قرآن مجید کے ذریعے ہی انجام پائے گا کہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو کامل ہدایت کا اعلامیہ ہے۔ (ما فرطنا في الکتاب من شیء) (الأنعام : ۳۸ ) یہ سراسر روشنی اور کتاب مبین ہے (مائدہ : ۱۵) دنیا کو ایک نئے Enlightenment سے آشنا کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ پوری امت آباء پرستی اور اسلاف پرستی سے دست کش ہو کر خدا اور اس کی کتاب کا دامن تھام لے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اہل ایمان کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے (بقرہ : ۲۵۷) اور بے شک یہ اسی کی ذات ہے جس نے اپنے بندے پر واضح آیات اتاری تا کہ ظلمت میں پھنسا انسانی قافلہ روشنی کی طرف سفر کرسکے (ھو الذي ینزل علی عبدہ آ یٰت بینٰت لیخرجکم من الظلمات الی النور) (الحدید:۹) اگر آج بھی حاملین قرآن وحی ربانی کا راست چیلنج قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں تو وہ اندھیروں سے روشنی کے اس سفر میں اپنی پشت پر تائید ایزدی کو پائیں گے جیسا کہ ارشاد ہے (ہوالذی یصلی علیکم و ملئکتہ لیخرجکم من الظلمات الی النور وکا ن بالمؤمنین رحیما) (الاحزاب:۴۳)۔ اندھیرا کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو حاملین قرآن کے لئے تاریخ کے ہر لمحے میں ایک نئی صبح کی بشارت دینا عین ممکن ہے حتی کہ آج بھی جب ہم ایک اندھی گلی میں پھنس گئے ہیں جب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپنی لغزشوں کی پاداش میں ہم مثل حضرت یونس خود کو مچھلی کے تنگ و تاریک پیٹ میں بے بس محسوس کرتے ہوں اور اس صورت حال سے نجات کے تمام امکانی دروازے بندہوگئے ہوں تب بھی ایک نئےEnlightenment ، ایک نئی ابتداء ہمارے دروں پر دستک دے رہی ہے شرط یہ ہے کہ ہم بھی مثل یونس اپنی غلطیوں کے اعتراف کا حوصلہ رکھتے ہوں : (فنادیٰ فی الظلمات ان لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) (الانبیاء:۸۷)۔