خواتین و حضرات !
حضرت مسیحؑ ان چند برگزیدہ انبیاء میں سے ہیں جن کا تذکرہ بڑے ہی والہانہ انداز میں قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ یہ بات آپ کے علم میں ہو گی کہ قرآن مجید کی ایک مکمل سورت آپ کی والد ہ حضرت مریم علیہا الصلاۃ والسلام کے عنوان سے موسو م ہے جنہیں قرآن نے تمام مؤمن مردوں اورعورتوں کے لئے قدوہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ میں جب بھی سورۂ مریم کی تلاوت کرتاہوں اس کے صوتی آہنگ ، جملوں کے زیر و بم، اور مضامین کی رفعت سے روح وجد میں آجاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے لئے مسیح کی شخصیت سے الگ ہو جانا ممکن نہیں ۔ مسیح ابن مریمؑ ہمارے ہیں اور ہم اہل ایمان مسیح ابن مریم سے ہیں اور اس حقیقت کے باوجود کہ آج متبعین محمد اور متبعین مسیح کے درمیان گہر ی خلیج حائل ہے۔ہم نظری طور پر حضرت مسیح کو اپنے آپ سے جدا نہیں کر سکتے اور نہ ہی حضرت مسیح کے سچے متبعین سے اپنا رشتہ توڑ سکتے ہیں۔ حضرت مسیح پر ہمارا ایمان، خانوادۂ انبیاء کے دوسرے نبیوں کی طرح، ایمان کا جزو لا ینفک ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں اور حضرت مسیح کے مابین اس گہرے تعلق کا صحیح ادراک اب تک عیسائی دنیا میں نہیں کیا جاسکا ہے۔
میرے مسیحی بھائیو اور بہنو!
اہل ایمان کے گروہ جس طرح معاصر تاریخ میں بے وزن اور بے وقعت ہیں شاید انسانی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آج جن لوگوں کے ہاتھوں میں دنیا کا اقتدار اعلیٰ ہے انہیں مذہبی اقدار اور اعلیٰ انسانی اخلاق کی ہوا بھی نہیں لگی ہے۔ بیسویں صدی جو ابھی گذر ی ہے انسانی ہلاکت، اجتماعی قبروں، منظم نسل کشی اور غیر انسانی نظریات کی تر سیل و اشاعت کے لئے پچھلی تمام صدیوں پر بازی لے گئی ہے۔ انسان انسانوں کے لئے بھیڑیا بن گیا ہے۔ جیمس فیریز کی طرح ہم میں سے بہت سے لوگ اس بات پر ایمان لے آئے ہیں کہ تہذیب محض ظاہر ی حسن کا ری ہے، اسے کھر چیئے تو انسانی بہیمیت اپنی اصلیت ظاہر کر دے گی۔ آج چونکہ بہیمیت کو گلوبلائزیشن کا کاندھا بھی فراہم ہو گیا ہے لہذا اب پوری دنیا بھیڑ نما انسا نوں کی چراگاہ بن گئی ہے۔ امریکی صدر جارج بش کے الفاظ میں there is no place to hide گویا جارح امریکی عزائم سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ کوئی جائے پناہ نہیں رہ گئی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ موجود ہ دنیا کی سواری سے اتر آئیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کو ئی متبادل موجود نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم لوہے کے ایک پنجڑے میں قید ہوں جس کی دیواریں چہار سمت سے ہم پر تنگ کی جارہی ہوں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو اس سے پہلے فرد کو کبھی پیش نہیں آئی۔ اس احساس کو صحیح نام دینے کے لئے ہماری لغت میں الفاظ موجود نہیں ہیں۔
صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر آج میں آپ سے بلاتکلف کہہ دیتا ہوں کہ ہم خواہ مذہبی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوں، ہم تمام لوگوں کا مستقبل اسی کرۂ زمین کے مستقبل سے وابستہ ہے جسے خدا بیزار انسانی قیادت ہر اعتبار سے تباہ و برباد کرنے اور بالآخر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کے درپے ہے۔ مختلف ممالک جو نیوکلیائی قوت بن چکے ہیں یا بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں در اصل ایک ایسی سمت کے مسافر ہیں جس کی اگلی منزل انہیں معلوم نہیں ۔ قوموں کے خواب سراب زدہ اور گمراہ کن ہیں ۔ جھوٹی عظمتوں نے انہیں اپنی ساری قوت ایسے مقاصد کے لئے وقف کر دینے پر مجبور کیا ہے جس میں انسانیت کے لئے کوئی مستقبل نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ صورتحال اب انسانی ہاتھوں سے نکل گئی ہے ۔ جن بوتل سے باہر آگیا ہے۔ ساحروں کو پتہ نہیں کے اسے دوبارہ بوتل میں واپس کیسے بھیجاجاسکتا ہے۔ طرفہ یہ ہے کہ ہم صورتحال کا صحیح ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ ہماری آنکھیں وہی کچھ دیکھتی ہیں جو ذرائع ابلاغ دکھاتے ہیں اور چونکہ ذرائع ابلاغ پر انہی غاصب قوتوں کا پہرہ ہے اس لئے عام انسان صورتحال کی سنگینی کا واقعی اندازہ نہیں کر پا رہا ہے۔
ایک ایسی صورتحال میں جب دنیا پر تاریکی نے اپنے پنجے گاڑ دئیے ہوں ، جب سرنگ کی دوسری طرف روشنی نظر نہ آتی ہو اور جب مختلف تہذیبوں میں پائی جانے والی سعید روحیں خود کو بے بس محسوس کرتی ہوں اور جب اس صورتحال سے پریشان ہو کر پوری دنیا، بالخصوص عیسائی معاشروں میں برملا یہ سوال کیا جانے لگا ہو کہ کہاں گئے وہ لو گ جنہیں حضرت مسیح نے زمین کا نمک اور دنیا کی روشنی کہا تھا اور جن سے یہ توقع تھی کہ ان تاریک ایام میں وہ دنیا کی رہنمائی کر یں گے ۔ مجھے یقین ہے کہ آج بھی نہ صرف چرچ کی اس مجلس میں بلکہ عیسائی دنیا کے مختلف ایوانوں میں مسیح کے سچے متبعین کے کانوں میں یہ صدا آرہی ہوگی۔
’’یقین جانو تم زمین کے نمک ہو اور اگر نمک اپنی نمکینیت کھو دے تو پھر اسے کون نمکین کر سکے گا… تم تمام اقوام کے لئے مینارۂ نور ہو ۔ ایک ایسا چراغ جو پہاڑی پر واقع ہو۔ جس کی روشنی میں ہر کوئی راستہ پاسکے۔ اپنی روشنی پر پردہ نہ ڈالو ، اپنی روشنی سے ساری دنیا کو منور کر دو ، تمہاری روشنی سبھوں کے لئے مفید ثابت ہو تا کہ سب لوگ تمہارے آسمانی باپ کی نغمہ سرائی کر سکیں‘‘۔( متی ۵ آیات ۱۳ تا۱۶)
مجھے یہ بات کہتے ہوئے بڑا قلق ہور ہا ہے کہ جولوگ کبھی دنیا کے لئے مینارۂ نور تھے اب موجودہ تاریکی میں اپنے اس فرض منصبی کو انجام نہیں دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ تو نہیں کہنا کہ پوری عیسائی دنیا ظلمت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے گاہے بگاہے ہمیں روشنی کے کچھ مناظر دکھائی دے جاتے ہوں۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ فی زمانہ متبعین مسیح کی حیثیت مینارۂ نور کی نہیں رہ گئی ہے ور نہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم خود کو ظلمت میں اس طرح گھرا پاتے۔ آج کی اس مجلس میں میں نے قدرے بے تکلفی سے کام لیا ہے ایسا اس لئے کہ میں خود کو ان کے درمیان پاتاہوں جنہیں زمین کے نمک اور مینارۂ نور سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ہم مسلمانوں نے متبعین مسیحؑ کو ہمیشہ اہل کتاب سے خطاب کیا ہے یعنی ایک ایسا طائفہ جو خدا کے سچے رسول کی پیروی کا دعویدا ر ہو اور جسے ایمان و انصاف کے حوالے سے قا ئل کیا جا سکتا ہو ۔ قرآن مجید ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم اہل کتاب کے ساتھ مشتر کہ محاذ ترتیب دیں اور وہ باتیں جو ہمارے اور ان کے درمیان مشترک ہیں ان کی بنیادو ں پر مشترکہ جدو جہد کا پروگرام بنائیں۔ بالفاظ دیگر مجھے کہنے دیجئے کہ متبعین مسیحؑ اور متبعین محمدؐ کے لئے مشتر کہ جدو جہد کی بنا ہمارے نزدیک نہ صرف یہ کہ قابل قبول ہے بلکہ قرآن مجید اس کا داعی بھی ہے۔ البتہ اس حقیقت کے اظہار میں مجھے تکلف نہیں برتنا چاہئے کہ (یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء) کی دعوت ماضی میں بعض سیاسی وجوہ کے سبب اس طرح نہیں برتی جاسکی ہے جیسا کہ اس کا حق تھا ۔ آیئے میں ذرااس بات کی وضاحت کروں۔
اسلام کے ابتدائی ایام میں جب خدا کا آخری رسول ہمارے درمیان موجود تھا ہم مسلمانوں پر یہ حقیقت واضح تھی کہ انسانی تاریخ میں متبعین محمدؐ ایک خاص مقام پر فائز ہیں ۔ یہودی اور عیسائی قوموں کے بعد انسانی تاریخ کی رہنمائی کی ذمہ داری ہمیں سونپی گئی ہے ۔ قرآن نے بہت واضح الفاظ میں ہمیں بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ کی دعوت بعینہ وہی دعوت ہے جو حضرت ابراہیم ؑ اور دوسرے انبیاء کے ذریعہ انسانوں کی طرف بھیجی گئی بلکہ قرآن نے تو اس بات کی صریح الفاظ میں وضاحت کی ہے کہ محمد رسول اللہ دین براہیمی کے احیاء کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ وہی ابراہیم ؑ جسے قرآن مسلم حنیف کے لئے رول ماڈل کے طورپر پیش کرتاہے اور جس کے سچے متبعین کے لئے کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کا مطالعہ یقیناًآپ کے لئے باعث دل چسپی ہوگا۔ (ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک و ارنا مناسکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم) (البقرۃ: ۱۲۸) ابراہیم ؑ کی دعاقبول ہوئی اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی اولاد سے انبیاء کا ایک سلسلہ جاری ہو ا یہاں تک کہ یہ سلسلہ حضر ت اسماعیل ؑ کی اولاد میں محمدؐ رسول اللہ پر تمام ہوا۔ انبیاء کا یہ خانوادہ جس میں ابراہیم و اسحق اسماعیل و یعقوب و سلیمان و داؤد ؑ سبھی شامل ہیں، قرآن کہتا ہے، خدا کے سچے متبعین کی جگمگاتی کہکشاں ہے۔ ہم مسلمان ان تما م انبیاء پر ایمان لانا لازم خیال کر تے ہیں۔ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے (لانفر ق بین احد منہم)۔ یہ سب کے سب ہمارے لئے قابل اتباع ہیں پھر ہم ان کے سچے متبعین اور ان سے اپنا رشتہ جوڑ نے والوں سے محبت تر ک کر دیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کو ہم نے کبھی غیر نہ سمجھا ۔ قرآن ایسے لوگوں کی مدح و ستائش کر تا ہے جن کا تعلق اہل یہود اور اہل نصاریٰ سے ہے ۔ ایسا اس لئے کہ ان میں سے بعضوں کی پیشانیاں سجدے سے معمو ر اور ان کے دل خشیت الٰہی سے لبریز ہیں۔ قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ ہمیں مشترکہ جہد و عمل کی بنیاد فراہم کی ہے بلکہ اس نے ہمیں اہل کتاب سے سماجی اور معاشرتی رشتوں کی بھی اجازت دی ہے۔ اہل کتاب کا کھانا ہمارے لئے حلال کیا گیا اور ہمیں اس بات کی اجاز ت دی گئی کہ ہم ان کی عورتوں سے رشتہ مناکحت استوار کریں۔ قرآن کی پیدا کردہ یہی وہ وسعت قلبی تھی کہ جب عہد رسول میں نجران کے عیسائیوں کا ایک قافلہ مدینہ پہونچا تو رسول اللہ اس وفد کے ساتھ بڑی الفت و محبت سے پیش آئے ، باوجود اس ا مرکہ کہ انہیں اپنے عیسائی بنے رہنے پر اصرار تھا ۔ ہم مسلمانوں کے دل ہمیشہ سے حضرت مسیح کے سچے متبعین کے لئے کھلے رہے ہیں اور حضرت مسیح کے سچے متبعین بھی ہمارے ساتھ لطف ومہربانی سے پیش آئے ہیں۔ ذرا اس حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی مثال ملاحظہ فرمایئے جس نے مسلمانوں کو سیاسی پناہ دی تھی ۔ کہاجاتا ہے کہ نجاشی کی موت کی خبر جب مدینہ پہونچی تو رسول اللہ کو بڑا قلق ہوا آپ نے اس کے لئے غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ آپ نے کہا لوگو! آج تمہارا ایک بھائی رخصت ہوگیا ہے اس کی مغفرت کی دعاکر و ۔ مسلمانوں کی پہلی نسل خود کو عیسائیوں سے کتنا قریب سمجھتی تھی اس کا اظہار قرآن کی ان آیات سے ہو تا ہے جن میں ایرانیوں کے ہاتھوں رومی عیسائیوں کی شکست پر قرآن نے مسلمانوں کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جلد ہی اہل ایمان کو اس صد مے کے ازالہ کی خوشخبری ملے گی جب رومی عیسائی کے ہاتھوں ایرانی لشکر شکست پائے گا۔
حتیٰ کہ ان ایام میں جب اسلامی تحریک پر خطرات کے بادل منڈلا رہے تھے اور جب یہود و نصاریٰ سے مسلمانوں کو متوقع تعاون ملنے کے بجائے ان کی طرف سے مسلسل مخالفتوں او ر ریشہ دوانیوں کا سامنا تھا ان حالا ت میں بھی اہل کتاب کے سلسلے میں مسلم فکر کو مجروح نہیں ہونے دیا گیا ، ہماری وسعت قلبی بدستور باقی رہی ۔ رسول اللہ انہیں اہل کتاب قرار دیتے رہے اور قرآن اس بات کا بر ملا اعلان کر تار ہا کہ (لیسوا سواءً من اہل الکتاب امۃ قائمۃ یتلون آیات اللہ آناء اللیل وہم یسجدون) (آل عمران:۱۱۳)اور یہ کہ (ومن قوم موسی امۃ یہدون بالحق) (الأعراف:۵۹)۔ رہی عیسائیوں کی بات تو عیسائیوں کے سلسلے میں ہم نے ہمیشہ تعلق خاص کا اظہار کیا ہے۔ بقول قرآن ’’تم اہل ایمان سے محبت میں ان لوگوں کو قریب پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے درمیان علماء، اور عبادت گذار افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ تکبر نہیں کرتے‘‘ (مائدہ: ۸۲)۔
قرآن نے چونکہ اہل کتاب کو ایسے گروہ کی حیثیت سے متعارف کر ایا ہے جو مسلمانوں ہی کی طرح خدا کی اتباع کو اپنی قو می زندگی کے لئے سبب افتخار قرار دیتا ہے اس لئے مسلمانوں نے ہمیشہ سے اہل کتاب کی طرح احترام و رواداری کا مظاہر ہ کیا ہے۔ مسلم ریاستوں میں انہیں اعلیٰ مناصب دیاجانا اور انہیں مذہبی آزادی کی ضمانت اسی بات پر دال ہے ۔ اسلامی ریاست اہل کتاب کے حقوق کے سلسلے میں اتنے حزم و احتیاط کا مظاہر ہ کرتی رہی ہے کہ جب حضرت عمر فاتح کی حیثیت سے یروشلم میں داخل ہوئے تو صرف اس خیال سے آپ نے چرچ کے اندر نماز پڑھنا مناسب خیال نہ کیا کہ مبادا ان کا یہ عمل مسلمانوں کے لئے چرچ کو مسجد میں تبدیل کر نے کا سبب بن جائے۔ حتی کہ چرچ کے باہر جن سیڑھیوں پر آپ نے نماز ادا کی اس بارے میں بھی آپ نے یہ تحریری ضمانت دینا ضروری سمجھا کہ مسلمان صلوۃِ عمر کو نظیر بناتے ہوئے اس جگہ کو مسجد میں تبدیل نہ کردیں۔
رہی یہ بات کہ اہل کتاب کے معابد تو اس بار ے میں اگر مسلمانوں نے احترام و رواداری کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کی بنیا د بھی قرآن میں موجود ہے۔ بالفاظ قرآن (ولو لا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لہدمت صوامع و بیع و صلوات ومسٰجد یذکر فیھااسم اللہ کثیرا) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ نہ ہٹا تار ہتا تو یہ خانقاہیں چرچ، سنا گاؤگ اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام لیا جا تا ہے ڈھادی جاتیں (الحج:۴۰)۔ مسجدوں کے ساتھ ساتھ خانقاہوں چرچ اور سناگاؤگ کا تذکرہ اور پھر یہ کہنا کہ ان میں اللہ کانا م کثرت سے لیاجاتا ہے اس بات پر دال ہے کہ مسلمانوں کو اہل کتاب کے معابد کو بنظر احترام دیکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ابتدائی ایام میں مسلم ذہن پر یہ حقیقت روشن تھی کہ ان کی دعوت تمام انبیاء کی دعوتوں کا ارتکاز ہے ۔ ان سے پہلے جو لو گ کتابوں کے حاملین رہے ہیں ۔ انہوں نے بھی دنیا کو بندگئ رب کی دعوت دی ہے ۔ اب چونکہ آخری نبی کی حیثیت سے مسلمان منصب سیادت پر فائز ہیں اس لئے دنیا کے تمام اہل ایمان کی کمانڈ ان کے ہا تھوں میں ہے جب تک مسلمان خود کو اس منصب عظیم کا حامل سمجھتے رہے وہ اہل کتاب کی قوتوں کو کلمۃ سواء کی بنیاد پر عظیم نبوی مشن کے لئے استعمال کر تے رہے۔ البتہ جب سے انہوں نے بعض سیاسی اور معاشی عوامل کے تحت خودکو امت مامور کے بجائے اہل کتاب ہی کی طرح ایک عام امت سمجھنے لگے، ان کی وسیع النظر ی اور رواداری کو گہن لگ گیا ۔ ہمارے علماء و فقہا ء اہل کتاب کے سلسلے میں تحفظ ذہنی کے اسیر ہوگئے اور ہمیں ایسا محسوس ہونے لگا گویا کلمۃ سواء کے مشترکہ پروگرام میں اب اہل کتاب کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب عباسی بغداد میں بعض اہل یہود کو کلیدی عہد ے عطا کئے جانے لگے تو اس صورت حال نے مسلمانوں میں قومی طرز فکر رکھنے والوں کو اندیشوں میں مبتلاکردیا ۔ اموی دور حکومت ہی سے کلیدی مناصب کی تقسیم میں قبائلی عصبیت کا ر فرما ہوگئی تھی۔ لوگ اس بات کو حق بجانب سمجھنے لگے تھے کہ اعلیٰ عہدوں پر تقرری میں خاندانی تعلقات اور قومی شناخت کو بھی مد نظر رکھا جائے۔ دوسری طرف اہل یہود کے بعض خاندان بعض انتظامی اور معاشی علوم میں اپنی سبقت کی وجہ سے خصوصی امتیاز کے حامل تھے۔ جس کی وجہ سے حکومت کی نگاہ انتخاب ان پر پڑ رہی تھی ۔ اسی عہد میں قومی مسلمانوں کی طرف سے بعض ایسی روایتیں وضع کی گئیں جن سے یہ بتا نا مقصود تھا کہ اہل کتاب کو اسلامی ریاست میں اہم مناصب عطا نہیں کئے جاسکتے ۔ کہاجاتا ہے کہ بنوقریظہ کے قتل کاقصہ جو بعد کے عہد میں سیرت کی کتابوں میں تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے،ابن اسحاق اور دوسرے مؤرخین کے ہاتھوں اسی عہد میں تشکیل پایا ہے ۔ ہمارے عہد میں بعض ایسی تحقیقات منظر عام پر آئی ہیں جس نے اس واقعہ کے سلسلے میں سخت شبہات پیدا کر دیئے ہیں ۔ نبی رحمت کے ہاتھوں کسی قبیلہ کے اجتماعی قتل عام کو نہ صرف یہ کہ ذہن قبول نہیں کر تا بلکہ تاریخ بھی اس کو تسلیم کر نے سے انکاری ہے ۔ ان تراشیدہ قصوں کے اثرات ہی کا نتیجہ تھا کہ اہل کتاب کے سلسلے میں عہد عباسی میں ہمارے فقہاو مفکرین کے نظریے بدلنے لگے اور ایسا محسوس ہو نے لگا کہ کفار کی طرح اہل کتاب کو بھی،جنہیں اب تک ہم قرآنی دائرہ فکر میں ایمانی گروہ سمجھتے رہے تھے ، صاغرون بن کر رہناہوگا۔
اہل کتاب اور دوسرے گروہوں کی طرف ہماری وسعت قلبی کے خاتمہ نے ہمیں ایک قومی امت کے حصار میں محصور کر دیااور ہم جو اب تک تمام نوع انسانی کے لئے انصاف مساوات اور حریت کے حصول کو اپنا مقصد قرار دیتے تھے اب ان عظیم مقاصد کو ہم نے صرف اپنی قوم کے لئے مخصوص کر دیا ۔ اہل کتاب کے سلسلے میں ہما ر ے اس نئے رو یے کی تشکیل میں بنوقریظہ سے متعلق تراشیدہ قصے اور معاہدہ عمر کے مفروضہ دستاویز نے کلیدی رول ادا کیا ہے ۔ ہمارے مفکرین نے اس بات پر غور کر نے کی ضرورت کم ہی سمجھی کہ بنو قریظہ کا مفروضہ واقعہ نہ صرف یہ کہ قرآن کے بنیادی اصولوں سے ٹکرا تا ہے بلکہ خود اس واقعہ کے بیان میں اتنے تضاد موجود ہیں کہ اس کی بنیادپر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ دوسری طرف معاہدہ عمر کے مختلف متن تاریخ کی مختلف کتابوں میں ملتے ہیں ۔ ہر متن ایک دوسرے پر اضافہ معلوم ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس دستاویز کو حضرت عمر جیسی جلیل القدر شخصیت سے منسوب کر نا مناسب نہیں اور نہ ہی کسی ایسے مشکوک دستاویز کی بنیاد پر اہل کتاب کے سلسلے میں ایک ایسا نقط�ۂ نظر تشکیل دیا جاسکتا ہے جو انہیں حلیف کے بجائے حریف کے طور پر پیش کر ے۔ افسوس اہل کتاب کے سلسلے میں عہد عباسی میں ہمارے رویہ نے جو کروٹ لی اس کی بنیاد یں قرآن کے بجائے اس تاریخ میں ہے جس کی سند مشکوک ہے۔ مجھے اس بات کو بھی تسلیم کر نے میں کوئی تکلف نہیں ہے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ جب اپنی اصل بنیادوں سے ہٹ کر ملوکیت کی راہ پر گامز ن ہوگئی تو اس دور میں ہم نے اسلام کی اشاعت کے بجائے مسلم قومی افتخار کا علم بلند کر نا ضروری سمجھا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل کتاب سے ہمارے رشتوں کی دینی بنیاد نہ صرف یہ کہ متاثر ہوئی بلکہ ہم انہیں قومی افتخار کے پروجیکٹ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھنے لگے۔ اب چونکہ نہ ہم اس انبیائی مشن کے حامل تھے اور نہ ہی اہل کتاب کو اپنا حلیف بنانے کی ضرورت سمجھتے تھے اس لئے فقہاء اسلام نے آگے چل کر ان کے ساتھ سماجی رابطوں کے سلسلے کو منقطع کر نے کی کوشش کی ۔ کتابیہ عورت سے نکا ح کو معیوب سمجھاجانے لگا ۔ ہمارے مفکرین یہ سمجھنے لگے کہ مسلمانوں کی قومی ریاست اسلام کے بجائے عرب عصبیت سے قوت حاصل کر سکتی ہے اور یہی اس کے لئے نقطہ اتحادہوسکتا ہے ۔ اسلام سے عرب عصبیت تک کے اس سفر نے مسلم ذہن کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر دیا ۔ جلد ہی دنیا نے دیکھا کہ مسلمان اور نصاریٰ جو کبھی فطری حلیف تھے ،دوسو سالوں تک مسلسل ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے ۔صلیبی جنگوں نے نہ صرف یہ کہ عیسائی مسلم تعلقات کی دینی بنیادیں ہلادیں بلکہ آنے والی صدیوں میں مسلمانوں کے سلسلے میں عیسائی نقطہ نظر کی تشکیل میں ان جنگوں نے کلیدی رول ادا کیا ۔ پر وپیگنڈہ اتنا شدید تھا کہ یورپ میں صدیوں محمد رسول اللہ کو جھوٹے پیغمبر اور بہروپیے (نعوذ بااللہ) کی حیثیت سے دیکھا جاتا رہا حتی کہ اٹھارہویں صدی تک لندن کے اسٹیج ڈراموں میں محمد رسول اللہ کو ایک ایسے شخص کی حیثیت سے پیش کیا جاتا رہا جو بقول ان ڈراموں کے پوپ بننا چاہتا تھالیکن جب ان کی خواہش پوری نہ ہوئی تو انہوں نے عیسایت کے خلاف ایک نیا مذہب ایجاد کر ڈالا ۔ شکیسپیر کے ڈراموں میں foul fiend Mahu کی گو نج اور دانتے کی ڈوائن کامیڈی میں رسول اللہ کو جہنم کے مرکز ی حصے میں دکھا یا جانا اس مخالفانہ پروپیگنڈہ کی بیّن مثال ہے ۔ اسلام کے خلاف اس متعصبانہ پروپیگنڈہ نے یورپ کے ادب کو جس طرح متاثر کیا ہے آج مغربی ذہن پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں کچھ یہی حال ہمارے علماء کی ان تحریروں کا ہے جو صلیبی جنگوں کے تناظر میں اہل نصاریٰ کے سلسلے میں لکھی گئی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس قدیم فقہی مکالمہ کا صلیبی جنگوں سے اوپر اٹھ کر جائز ہ لیں اور یہ دیکھیں کہ یہ قدیم فقہی محاکمہ قرآنی دائرہ فکر کی پوری پوری پاسداری کر تے ہیں یا نہیں گویا دونوں طرف فقہی اور مذہبی ادب کے بے لاگ محاکمہ کی ضرورت ہے اگر مسلمانوں کو ایک طرف اہل کتاب کے سلسلے میں فقہی مباحث کو قرآنی دائرہ فکر میں از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تودوسری طرف عیسائی علماء پر بھی لازم ہوگا کہ وہ بائبل میں موجود حضرت مسیح کے خطبوں کی روشنی میں اسلامی مشن کا صحیح اور منصفانہ محاکمہ کریں گویا دونوں طرف ایک نئی دینیات تشکیل دیئے بغیر مسلمان اور اہل کتاب پھر سے فطری حلیف نہیں بن سکتے ہیں ۔ یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ دنیا میں مختلف شعوب و قبائل کا پایاجانا اور مختلف انبیاء کے ایمانی طائفے دراصل خدائی اسکیم کا حصہ ہیں ۔ خدا نے ہمیں مختلف اقوام و ملل میں پیدا کیا ہے اور مختلف ایمانی سلسلوں میں ہماری شناخت تشکیل دی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم مختلف ایمانی حوالوں سے جانے جائیں ۔ (ولو شاء اللہ لجعلھم امۃ واحدۃ) (الشوری:۸) ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں لیکن اس کے بر عکس ہوتا یہ ہے کہ ہر گروہ نجات کو صرف اپنے لئے مخصوص سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ ان نازک امور پر گفتگو سے قرآن اور بائبل دونوں جگہ منع کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔ (ان اللہ یفصل بینہم یوم القیامۃ) اور مجھے یقین ہے کہ آ پ حضرات بائبل کے فرمان thou shall not judge سے بھی واقف ہوں گے۔ جب خدانے نجات کے معاملہ کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اہل ایمان کے طائفہ کو جہنم رسید کر نے میں ہم اپنی قوتیں ایک دوسرے پر صرف کریں۔
عزیز بھائیو اور بہنو !
فرد کی طرح ہر نسل اپنی فہم و بصیرت کے لئے خود ہی جواب دہ ہے ۔ ہمارے متقدمین کی فہم و بصیرت کا حساب ہم سے نہیں لیا جائیگا۔ (تلک امۃ قد خلت لہا ماکسبت ولکم ما کسبتم و لا تسئلون عما کانوا یعملون)( البقرۃ:۱۳۴)ہم اس بات کے ہر گز سزاوار نہیں کہ متقدمین کی لغزشوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھریں اگر آج ہم متقدمین کی تحریروں کو حرف آخر کی حیثیت سے دیکھنے کی کوشش کریں گے تو کسی نئی ابتداء کا امکان سرے سے ختم ہوجائے گا ۔ صلیبی جنگیں کب کی ختم ہوچکی ہیں تب سے اب تک انسانی تاریخ نے ایک طویل سفر طے کیا ہے ۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھلانی چاہئے کہ آج جولوگ ہمارے درمیان تہذیبی جنگ کا بگل بجارہے ہیں وہ عیسائیت کے سچے نمائندہ یاحضرت مسیح کی تعلیمات کے سچے امین نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں ساری عیسائی دنیا کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ جولوگ جدید دنیا کو عیسائی مسلم خانوں میں بٹی دیکھتے ہیں وہ دراصل صورتحال کے صحیح محاکمہ سے قاصر ہیں۔ سچ تو یہ ہے آج پوری نوع انسانی باطل کے ہاتھوں دہشت زدہ ہے ۔ اہل ایمان کے تمام ہی طائفوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاصردنیا کو جنگ کی تباہ کاری اور ناانصافی کی عقوبت گاہ سے نجات دلائیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس وقت عیسائی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح نفرت پھیلادی گئی ہے اور جس طرح اسلام اور مسلمانوں کو موت و دہشت کا ایجنٹ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ، عیسائی علما اور مغربی مفکرین کے لئے اپنے ثقافتی ادب سے دست کش ہونا کچھ آسان نہ ہوگا ۔ اور نہ ہی ان کے لئے یہ آسان ہو گا کہ وہ خالص تعلیمات مسیح کی روشنی میں اسلامی مشن کا محاکمہ کرسکیں۔ نفرت کی اس فضا میں اسلام کی غیر جانبدار انہ تفہیم یقیناًایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ لیکن اگر ہمیں دنیا کو جنگ و نا انصافی سے بچانا ہے تو اس سرزمین پر پائے جانے والے اہل ایمان کے تمام طائفوں کو مشتر کہ جدو جہد کے لئے آگے آنا ہوگا۔ مجھے یقین واثق ہے اس عظیم کام میں اللہ کی نصرت ا و ررہنمائی ہمارے شامل حال ہوگی۔والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا اور مجھے یقین ہے کہ ایک نئی ابتداء کے لئے ہمارے عیسائی بھائی بہنوں کے کانوں میں بھی حضرت مسیح کی ان ایمان افروز صداؤں کی گونج سنائی دے رہی ہوگی: