دنیا پر امریکی استبدادی نظام کے استحکام کے ساتھ ہی ایک نئے امریکی اسلام کی آواز بھی سنائی دینے لگی ہے۔ بقول آیت اللہ خامنئی یہ ایک ایسے کمزور اور پسماندہ اسلام کی طرف دعوت ہے جو امریکی اصولوں کے ساتھ چلتا اور مغربی تصورات سے غذا حاصل کرتا ہے۔ خامنئی اور عالم اسلام کے دوسرے رہنماؤں کی تشویش یقیناًبجا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ایسے خود ساختہ مسلم مسیحاؤں اور رہنماؤں کی گویا باڑھ سی آگئی ہے جو اسلام کو امریکی خارجہ پالیسی کی عینک سے دیکھنا پسند کرتے ہیں اور جو بڑی بے شرمی سے صدر بش کو مسلم دنیا کا مسیحا قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک، بلکہ کہنا چاہئے، ان کے لئے صدر بش حریت کے علمبردار ہیں جنگ کے نہیں۔ فی زمانہ امریکہ میں ایسے مسلمان بھی موجود ہیں جو خود کو اہل فکر سمجھتے ہیں اور ساری دنیا کو یہ باور کرانے پر تلے بیٹھے ہیں کہ عراق پر امریکی تسلط کے ذریعہ دراصل عرب دنیا میں تحریک اصلاح کے لئے راہ ہموار ہوگی۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر بعض نام نہاد مسلم دانشور امریکہ کے ساتھ امریکہ کے لئے جنگ میں شامل ہونے کو دینی فریضہ گردانتے ہیں اور برملا اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ امریکی شہری کی حیثیت سے ان پر یہی کچھ فریضہ عائد ہوتا ہے۔ یہ تو رہی اسلام کے ایک ایسے نامانوس قالب کی بات جسے ہم امریکی اسلام سے تعبیر کرتے ہیں۔
البتہ عالم اسلام کے بڑے شہروں، مسلم ممالک کے دارالحکومتوں مثلاً ریاض، قاہرہ اور اسلام آباد میں امریکہ کے سلسلے میں جو جذبات پائے جاتے ہیں وہ بالکل ہی ایک دوسری کہانی سناتے ہیں۔ عالم اسلام میں امریکہ کو ایک بیرونی استبداد کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور عام خیال یہ ہے کہ عراق میں لڑی جارہی جنگ ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے۔ بلکہ بعض تو اسے اسلام اور کفر کے درمیان معرکہ آرائی بتاتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک انتہائی تکلیف دہ منظرنامہ ہے البتہ اس کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں اسے سیاہ و سفید کے خانے میں دیکھنا صورتِ حال کی صحیح تفہیم سے صرف نظر کرنا ہوگا۔ عراق کی موجودہ معرکہ آرائی میں جو لوگ امریکہ کے خلاف نبردآزما ہیں ان میں اشتراکی بھی ہیں اور اسلام پسند بھی، عراقی قومیت کے علمبردار بھی ہیں اور وہ لوگ بھی جو اس بحرانی صورتِ حال کا فائدہ اٹھانے کے لئے پسِ پردہ سرگرم ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مختلف اور متحارب عناصر صرف اسلام کی خاطر سرگرم نہیں ہیں اور نہ ہی عراق کی موجودہ معرکہ آرائی کے وہ اہداف مقرر کئے گئے ہیں جو کسی ایسی مزاحمت کو خالصتاً جہاد فی سبیل اللہ کے دائرۂ کار میں لے آئیں۔ قطع نظر اس کے کہ عراق کے مزاحم کار ایک مذہبی جہاد میں مشغول ہیں یا نہیں، گزشتہ دنوں سلفی اسلام کے نمائندوں نے اس بحث کو ایک فیصلہ کن فتوی سے سلجھانے کی کوشش کی ہے جس سے معاملہ کہیں زیادہ الجھ کر رہ گیا ہے۔ اس فتوی کے مطابق عراق کی مدافعت میں امریکی حملہ آوروں کے ہاتھوں اپنی جان گنوانا عین شہادت ہے۔ غیر وہابی سرکردہ علماء اور عالم اسلام کی دینی جماعتیں بھی جہاد عراق میں شرکت کا نعرہ بلند کرتی رہی ہیں۔ اس پس منظر میں اسلام کے عام قاری اور عام مسلم ذہن کے لئے یہ سمجھنا کچھ آسان نہیں رہتا کہ حق کس کے ساتھ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی اسلام کے علمبردار، ایک ہی امت کے افراد امریکہ کی حمایت میں اس کے مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑتے ہوئے عین اسلامی فریضہ انجام دے رہے ہوں اور جو لوگ ان کے ہاتھوں مارے جائیں یا جو ان کے مزاحم ہوں وہ بھی اسی جذبۂ اسلامی سے سرشار ہوں۔ امریکی اسلام کے علمبردار ہوں یا سلفی اسلام کے فتویٰ ساز ان دونوں کو شاید اس بات کا احساس نہیں کہ وہ نفس مسئلہ کا محاکمہ کرنے اور وحی ربانی کی روشنی میں کسی محکم فیصلہ پر پہنچنے کے بجائے ایک ایسی epistemology کے اسیر ہوگئے ہیں جس میں مباحثے، مکالمے اور مناقشے کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔ فتوے کی زبان میں کلام کے عادی حضرات اس بات کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ وہ کتاب و سنت سے اپنے نقطۂ نظر کی صحت پر دلیل لائیں۔ مسائل پر محاکمے میں ان کا تمام تر انحصار مصالح امت پر ہوتا ہے جو بڑی حد تک ذاتی رجحانات اور انفرادی فہم و بصیرت سے غذا حاصل کرتا ہے۔ فتوے کی اس زبان نے امت مسلمہ کے تمام اہم امور پر داخلی بحث و تمحیص کے مواقع کو ختم کردیا ہے۔ ہر گروہ اپنے فیصلہ کو finished product کے طور پر دیکھتا ہے جس کے از سر نو تحلیل و تجزیہ کی ضرورت اس کے نزدیک خود مذہب پر سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اندرون امت داخلی مباحثے کی موت نے ہمیں ایک بند گلی میں پہنچا دیا ہے جو ان تمام بحرانوں سے کہیں بڑا بحران ہے جس سے آج ہم نبرد آزما ہیں۔ جنگیں اسلحوں سے ضرور لڑی جاتی ہیں اور یہ بھی لازم ہے کہ عزت نفس کی لڑائی لڑنے والے شوق شہادت اور ذوقِ عزیمت سے سرشار ہوں۔ لیکن اگر عین بحرانی لمحات میں بھی حالات کے نئے محاکمے اور وحئی ربانی سے از سرنو اکتساب کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی تو کسی نئے راستے کی دریافت ممکن نہیں۔ علماء کے روایتی حلقے ہوں یا سیکولر تجدد پسندوں کے گروہ یہ سب کے سب ایک ایسے کلچر میں سانس لے رہے ہیں جہاں مکالمے کی صحت مند روایت دم توڑ چکی ہے۔ سچ پوچھئے تو اسلام کو اقوام عالم کا ایجنڈا بنانے میں اس مفتیانہ ذہن نے سد سکندری کھڑا کر رکھا ہے۔
ایوب خاں کے پاکستان میں جب اس سوال نے سر اٹھایا تھا کہ پاکستان میں نافذ ہونے والا اسلام آخرکس فرقے کی عکاسی کرے گا۔ چار ائمۂ فقہاء، اہل تشیع یا غیر مقلدین میں سے کس کے اسلام کو ریاست کا مذہب بنایا جائے گا تو اس وقت علماء اسلام نے اس سوال میں پوشیدہ بھیانک زیریں خطروں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ کہہ کر اس سوال سے جان چھڑانے کی کوشش کی کہ اکثریت کی فقہ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہونی چاہئے اور چونکہ پاکستان میں اکثریت حنفی فقہ کے علمبرداروں کو حاصل تھی اس لئے ریاست پر حنفی اسلام کا اسلام کے دوسرے قالبوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ حق تھا۔ البتہ یہ بات عمداً نظر انداز کردی گئی کہ جو لوگ اپنے اپنے مسلکوں کو احق تسلیم کرتے آئے ہیں ان کی احق فقہ کو صرف تعداد کی کمی کی بنیاد پر کالعدم یا معطل قرار دیا جانا قرین انصاف نہیں ہوسکتا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی نئی ریاست ان تمام متصادم اور متحارب فقہی دبستانوں کے از سرِنو تحلیل و تجزیہ کا عزم کرتی اور نئے عہد کے تقاضوں کے پیشِ نظر قرآن مجید کی روشنی میں ان دبستانوں سے اخذ و استراد کا فیصلہ کرتی۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو اسلام کی ایک نئی جگمگاتی تصویر دنیا کے سامنے آسکتی تھی۔ لیکن جو لوگ ایک ایسی روایت کے اسیر ہوں جہاں مباحثے کی موت ہوچکی ہو، جہاں تمام ہی مسائل کا قطعی اور حتمی جواب قدیم فقہاء کے دبستانوں سے برآمد کرنے پر زور ہو بھلا ایک ایسی روایت کے حاملین مدت سے بند دریچوں کو کھولنے کی جرأت کیسے کرسکتے تھے۔
قرآن ایک جاری اور continuing discourse ہے۔ امر ربی کے جلو میں یہاں اس بات کی مسلسل دعوت دی جارہی ہے کہ اہل ایمان غور و فکر اور تحلیل و تجزیہ کا سلسلہ دراز رکھیں۔ یسألونک کے جواب میں قُل کی تکرار اس بات سے عبارت ہے کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو فتاوی طرز فکر کا اسیر بنانا نہیں چاہتا۔ جو لوگ اپنے دل و دماغ پر تالے ڈال لیتے ہیں (أم علی قلوب أقفالہا) (محمد:۲۴) یا جو لوگ آنکھ، کان اور زبان رکھ کر بھی ان سے کام نہیں لیتے یا جو مسائل کی روایتی تفہیم پر جم جاتے ہیں (وجدنا آباء نا کذلک یفعلون) (الشعراء: ۷۴) وہ بالآخر جوہر حق شناسی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس لئے قرآن چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے تحلیل و تجزیے اور غور و فکر کا سلسلہ مسلسل جاری رکھیں۔ حتی کہ ایمان لانے کے بعد بھی جستجو کی یہ منزل تمام نہیں ہوتی۔ کائنات پر غور و فکر اہل ایمان کے دلوں کو خشیت سے مامور کرتی، انہیں اہل علم کے منصب پر فائز کرتی (انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء) (فاطر:۲۸)اور زندگی کے بحرانی لمحات میں ہمت ہارنے یا شکست تسلیم کرنے کے بجائے ان پر اس راز سے پردہ اٹھاتی ہے کہ بڑی کامیابی کے حصول کے لئے ابتلاء و آزمائش کے جانگسل مراحل سے گزرنا ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ وہ قیادت عالم کے منصب کے سزاوار سمجھے جائیں۔ غور و فکر، تدبر و تعقل کی دعوتِ مسلسل سے عبارت یہ کتاب‘ حیرت ہے کہ جس امت کے درمیان موجود ہے خود اس کے اندر ایک صحت مند مباحثے کی موت ہوچکی ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا اس کا شافی جواب اس مباحثے کی ابتداء کے بغیر ممکن نہیں: (ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یأتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم البأساء والضراء وزلزلوا حتی یقول الرسول والذین آمنوا معہ متی نصر اللہ ألا ان نصر اللہ قریب) (البقرہ:۲۱۴)۔
اسلام کے یہ مختلف قالب جو ایک دوسرے سے باہم متصادم نظر آتے ہیں اور جس کی وجہ سے یہ امت تفرقے کے عذاب میں جینے پر مجبور ہے‘ دراصل وحی کی جامد تفہیم کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید کے بہتے آبشار کے گرد فقہاء و مفسرین کی تعمیر کردہ دیواریں، مورخین اور روایت سازوں کے ذریعہ فراہم کیا جانے والا تاریخی تناظر اور سب سے بڑھ کر یہ خیال کہ سلفِ صالحین کاانسانی فہم التباسات سے ماورا وحی جیسے تقدس کا حامل ہے، وہ عوامل ہیں جس نے وحی جیسی sublime شئے سے اخذ و اکتساب کے سلسلے میں ہمیں یہ باور کرا رکھا ہے گویا یہاں دماغ کے استعمال کی کوئی ضرورت نہیں۔ وحی کے آبشار سے ہمارا راست رابطہ منقطع ہوجانے سے ہوا یہ ہے کہ ہم خود کو راست اس کا مخاطب نہیں پاتے۔ وحی کو خود respond کرنے کے بجائے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ قدماء نے اسے کیسے respond کیا۔ اس طرح کتاب ہدایت کی اتباع میں ہمارا ہر قدم دراصل سلفِ صالحین کی اتباع پر منتج ہوجاتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا، ہر شخص کے اپنے اپنے پسندیدہ سلف صالحین ہیں جن کی اتباع کو وہ جزو دین جانتا ہے اور اس کا دامن تھام لینے کو غایت دین قرار دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج امت کی مذہبی زندگی قرآن کے بجائے مختلف قسم کے سلفِ صالحین کے گرد گردش کرنے پر مجبور ہے۔ نسلا بعد نسل اس سلسلۂ تقلید نے نہ صرف یہ کہ ہمیں اصل ماخذ وحی سے دور کردیا ہے بلکہ دین کے نام پر ہم بڑی حد تک قدماء کی فہم کے تابع آراء الرجال کے اسیر ہوگئے ہیں۔
امت مسلمہ جو بلاشبہ تمام انبیائے سابقین کی دعوتوں کا ارتکاز ہے اور جسے آخری نبی محمد رسول اللہ کی قیادت میں اقوام عالم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہے، ایک ایسی عالمگیر امت میں اگر فہمِ دین کے نام پر حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی جیسے مستقل خیمے وجود میں آجائیں اور دین کی ان تعبیروں کو حتمی اور غیر زمانی حیثیت حاصل ہوجائے تو یہی سمجھنا چاہئے کہ غور وفکر کی صحت مند روایت اب ہمارے درمیان ختم ہوگئی ہے۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ کسی مخصوص عہد کے علماء کو رہتی دنیا تک کے لیے لائق اتباع سمجھا جائے۔
نویں صدی ہجری میں چار مسالک کو مستقلاً تسلیم کئے جانے اور اسے حکومت کی باقاعدہ سرپرستی مل جانے کے بعد سے اب تک ہم رفعِ فتنہ کی خاطر یہی کہتے آئے ہیں کہ چاروں مسالک حق پر ہیں ان میں سے کسی ایک کی پیروی بھی اتباع دین قرار پائے گی۔ لیکن اب تک ہم اس سوال کا شافی جواب نہیں دے سکے ہیں کہ جب چاروں ائمہ کا ماخذ ایک ہی قرآن ہے تو پھر ان کے جوابات میں بسااوقات اتنا اختلاف کیوں واقع ہوجاتا ہے کہ نماز جیسی اجتماعی عبادت بھی مشترکہ طور پر ادا کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔ پھر یہ کہ اگر چار ائمہ تشریح و تعبیر کا یہ غیر معمولی حق رکھتے ہیں تو پانچویں، چھٹے یا بعد کے عہد میں آنے والے دوسرے اہل علم اور خدا ترس علماء سے یہ حق کیوں چھینا جاسکتا ہے۔
اٹھارویں صدی میں محمد بن عبدالوہاب کی دعوتِ اصلاح سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ صحت مند غورو فکر کی روایت کا شاید دوبارہ احیاء ہوسکے گا۔ حنبلی خیمے سے اٹھنے والی اس دعوتِ انقلاب نے آگے چل کر اتنا تو ضرور کیا کہ حرم مکی میں چاروں ائمہ کی الگ الگ نمازیں بند ہوگئیں۔ عالم اسلام کے لئے سلفی اسلام کے اس تحفے کی یقیناًتحسین ہونی چاہئے البتہ ابن تیمیہ اور محمدبن عبدالوہاب کے متبعین میں بھی عدم تقلید کے نام پر اسلام کی ایک ایسی تعبیر کو احق تسلیم کرنے پر اصرار جاری رہا جس کا سرا محمد بن عبدالوہاب سے ہوتا ہوا محمدبن حنبل پر ٹوٹ جاتا تھا۔ بیسویں صدی میں چلائی جانے والی پرشور دینی تحریکوں نے بھی ان خیموں کے اتحاد یا اختلاط کی بڑی کوشش کی لیکن یہ تمام کوششیں اتحادِ اسلامی کے وقتی مظاہر سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ ایسا اس لئے کہ معلوم، مدوّن اور طے شدہ جواب کو ازسر نو چیلنج کرنا، وحی کی روشنی میں اس کا تنقیدی محاکمہ کرنا اور راست اکتساب کی فراموش گزرگاہ پر ازسرِنو چلنا اتنا وقیع علمی چیلنج ہے جس کے لئے ہمت جٹانا کچھ آسان نہ تھا۔
مباحثے کے فقدان اور قرآن مجید کو محورِ فکر سے ہٹا دینے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اکیسویں صدی میں امت مسلمہ نویں،دسویں صدی کی فقہی دنیا میں جینے پر مجبور ہے۔ مذہبی زندگی کی قیادت ان افراد کے ہاتھوں میں تھما دی گئی ہے جو اپنی اپنی قبروں میں صدیوں سے آرام فرما رہے ہیں اور جنہیں یقیناًاکیسویں صدی کے حالات سے ناواقفیت کے لئے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ صدیاں گزر گئیں امت زندہ چلتی پھرتی قیادت اور زندہ ذہن و فکر سے محروم ہے۔ یہ ہے وہ صورتِ حال جس کی شکایت خدا کی کتاب اپنے حاملین سے کررہی ہے (یا رب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مہجورا) (الفرقان:۳۰)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’’ لوگو خدا تمہیں اس کتاب کے ذریعے سربلند کرے گا‘‘۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ اس کتاب کے حاملین صدیوں سے مسلسل زوال کا شکار ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس پر اس وقت تک غور کیا جانا چاہیے جب تک اس سوال میں پوشیدہ رموز کا پتہ نہ لگ جائے۔ قرآن کی تلاوت، اس کی تحفیظ اور نشرو اشاعت میں یہ امت بھلا کب پیچھے ہے۔ اس بارے میں دنیا کی کوئی قوم ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ لیکن اس کے باوجود ہم ایک زوال پذیر قوم ہیں ایسا اس لئے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ حاملِ قرآن ہونے کے واقعی مطالبات کیا ہیں۔ چونکہ ہم نے بالعموم تعبیراتی ادب اور فقہی سرمائے کو قرآن کا مماثل بلکہ اس کا کشید کیا ہوا عطر قرار دے رکھا ہے اس لئے ہم تمسک بالقرآن کے حوالے سے ان کتابوں سے چمٹے رہنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا احساس بھی نہیں کہ اس عمل سے رفتہ رفتہ ہم اصل کتاب سے کتنی دور جا پڑے ہیں۔ ہم قرآن مجید کی آفاقی دعوت کو فقہاء کی انسانی تعبیرات کا مماثل یا اس کا متبادل سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہیں لہذا دینی معاشرہ کے نام پر فی الفور ہمارے ذہنوں میں ایک ایسے معاشرے کا تصور ابھرتا ہے جہاں قدیم فقہاء کے دواوین اچانک قانون بن گئے ہوں۔ہم جب تک انسانی تعبیرات کو وحی کا ہم پلہ سمجھتے رہیں گے اور جب تک راست وحی کے بجائے تعبیرات انسانی پر ہمارا انحصار باقی رہے گا دنیا کی کوئی قوت ہمارے جاری زوال پر روک نہیں لگا سکے گی۔
قر�آ ن مجید آج بھی ہماے لئے سربلندی کا زینہ بن سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کی آفاقی دعوت سے خود کو ہم آہنگ کرسکیں اور ہمارے اندر وحی کے چلینج کو قبول کر نے کا یارا ہو۔ قرآن مجید تمام دنیائے انسانیت کے لئے ایک کھلی دعوت ہے یہ ایک ایسی کتاب ہے جو بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل تمام انسانوں کو اپنے سایۂ عاطفت میں پناہ دینا چاہتی ہے۔ یہ ہمیں وسیع النظری اور وسیع القلبی کی تعلیم دیتی ہے۔ جو قومیں اس وقت دنیا میں غالب ہیں ان کی سربلندی کا راز بھی قرآن مجید میں بتائے گئے ان ہی رموز میں پوشیدہ ہے گو کہ وہ خود بھی اس راز سے واقف نہیں۔ ہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی اس سرزمین پر توحید کی انبیائی تحریکیں چلتی رہی ہیں جن کی باقیات آج بھی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں اور جن کی تحریف شدہ کتابوں کے بارے میں بھی قرآن مجید کا یہ بیان موجود ہے کہ وہ رہنمائی اور روشنی سے نری خالی نہیں۔ گمراہ قومیں واقعہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی بہ نسبت گزشتہ چند صدیوں میں کہیں زیادہ وسیع القلبی کی حامل دکھائی دیتی ہیں اور ہم قرآن مجید کے حاملین ہونے کے باوجود من حیث الامت اپنے اندر اس آفاقی مزاج کو پیدا کرنے میں سخت ناکام ہیں جس میں گم شدہ انسانیت ہمارے سایۂ عاطفت میں جینے کو ترجیح دے بلکہ اس کے برعکس ہماری تنگ نظری اور فرقہ پرستی کا حال یہ ہے کہ ہمیں جب ایک چھوٹے سے خطے میں اقتدار حاصل ہوتا ہے تو وہاں غیر مسلموں کو تو چھوڑئیے خود دوسرے فرقے کے مسلمانوں کو زندگی جینے کا برابر حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
طالبان کا سقوط گو کہ عامۃ المسلمین کے لئے ایک انتہائی تکلیف دہ لمحہ تھا لیکن ایک ایسی ریاست جو قرآن کی آفاقیت سے منھ موڑ کر مسلکی اور فقہی تنگ نظری پر اٹھائی گئی ہو وہ قوانین فطرت کے مطابق زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ وہ لوگ جو اپنے ہی بھائیوں اور بہنوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر انہیں اقوام عالم کی قیادت کی ذمہ داری کیسے دی جاسکتی ہے؟ جب تک مسلمان قرآنی معاشرے کے قیام کے لیے فقہاء و متقدمین پر کاملاً انحصار کرتے رہیں گے تب تک ہماری سربلندی کی ہر خواہش ایک سراب ثابت ہوگی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآنی دائرۂ فکر کے اساسی جوہر کا از سرِنو ادراک کیا جائے۔ حاملین قرآن کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس نظامِ انصاف کے قیام کی دنیا کو دعوت دیں جس میں اخوت، بھائی چارگی، حریت فکری، رواداری اور ایک ایسی پیغمبرانہ وسعتِ قلبی اور ہمہ دم نصح و خیر خواہی کا ماحول پایا جاتا ہو جس کی تفصیلات اور بشارت سے قرآن کے صفحات پُر ہیں۔ قرآنی دائرۂ فکر میں ہماری کاملاً واپسی کے بغیر ’’اسلام ہی حل ہے‘‘ جیسے فلک شگاف نعرے zombified محسوس ہوں گے اور مسلمان ایک ایسی جامد قوم (fossilized nation) کے طور پر دیکھے جاتے رہیں گے جہاں سلسلۂ غورو فکر کی موت ہو چکی ہو۔